پاکستانی تدریسی کتب میں شامل بڑے جھوٹ
پاکستان میں قوم پرستی اور حب الوطنی متنازعہ فیہ موضوعات ہیں، یہ ہم پاکستانیوں کو کیا بناتے ہیں، اور اس سے کیسے ہم اپنی سرزمین اور قوم سے محبت کرتے ہیں؟
ان سوالات کے جوابات کا انحصار اس بات پر ہے کہ آپ یہ کس سے پوچھ رہے ہیں، ہماری قوم شناخت کا بڑا حصہ ہمارے تاریخی احساس اور ثقافت پر مشتمل ہے جبکہ خطے کی قدیم تہذیبوں کے ترکے کی جڑیں بھی کافی گہری ہیں، اسی طرح مذہب کا بھی اہم کردار ہے، مگر ہمارے نصاب میں شامل تاریخ کی کتابوں میں ہماری شناخت کے متعدد پہلوﺅں کا ذکر ہی موجود نہیں۔
نصاب میں یہ بتانے کی بجائے ہم کون ہیں، کی بجائے تاریخی حقائق میں ردوبدل کرکے ہمارے اپنی شناخت کے احساس کو تبدیل کرنے میں کردار ادا کیا گیا ہے، اور ان کتابوں میں سب سے بڑا دھوکہ ان واقعات کے بارے میں جو ابھی تک ہماری یادوں میں زندہ ہیں۔
ہیرالڈ نے اس معاملے پر ایسے مصنفین اور ماہرین کو دعوت دی جو تاریخ پر عبور رکھتے ہیں تاکہ وہ ان سوالات پر اپنے جوابات کو شیئر کرسکیں جن کے بارے میں مانا جاتا ہے کہ پاکستانی تاریخی نصابی کتب میں انہیں غلط طریقے سے پیش کیا گیا ہے۔
ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان بنیادی تقسیم
پاکستانی تعلیمی کتب میں جو چیز سب سے بڑا جھوٹ سمجھا جاسکتا ہے وہ یہ ہے کہ پاکستان کے قیام کی واحد وجہ ہی ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان بنیادی اختلافات تھے، یہ تصور اس خیال پر مبنی ہے کہ ہندوﺅں اور مسلمانوں تہذیبی طور پر منقسم ہے، جو کہ بالکل بھی ٹھیک نہیں۔
مذہب پر زور دینے کی وجہ سے دیگر عناصر کو نظرانداز کردیا گیا جو کہ دونوں شناختوں کے درمیان فرق کو ظاہر کرتی ہیں، مثال کے طور پر جنوبی ہندوستان کے بیشتر مسلمان شمالی علاقوں کی مسلم برادری کے مقابلے میں ہندوﺅں کے کافی قریب لگتے ہیں جس کی وجہ اس خطے کی خاص ثقافت اور زبانیں ہیں۔
اسی طرح ہندو اور مسلم ادوار کی تقسیم کے تاریخ میں ذکر کے حوالے سے اہم حقیقت یہ ہے کہ یہ برطانوی دور میں سامنے آیا، جس میں مسلم بادشاہتوں کو زیادہ نمایاں کیا گیا جو اقتدار کے لیے ایک دوسرے سے لڑتے رہتے تھے، یعنی بابر نے ابراہیم لوڈھی کو شکست دی اور دہلی سلطنت کا خاتمہ کرکے مغل عہد کا آغاز کیا۔
یہ نصابی کتب دیکھنے میں ایسی تصاویر لگتی ہیں جس مین دونوں مذہبی برادریوں نے ایک دوسرے سے نفرت کا اظہار کیا ہے، خاص طور پر اس اس کی مثال 1937 کے انتخابات کے بعد کانگریس حکومت کے قیام کی دی جاسکتی ہے۔
دیگر عناصر جو جنوبی ایشیاءکی تاریخ میں تاریخی طور پر مذہبی منافرت کا اظہار کا سبب بنے انہیں نظرانداز کیا جاتا ہے، درحقیقت رچرڈ ایٹن کی ایک مندروں کے بارے میں ایک تحقیق سے ثابت ہوتا ہے کہ لگ بھگ ایسے تمام واقعات جن میں ہندو مندروں کو لوٹا گیا، وہ واقعات سیاسی یا اقتصادی وجوہات کی بناءپر پیش آئے۔
بیشتر واقعات کی وجہ یہ تھی کہ مسلم حکمران باغی ہندو حکام کو سزا دینا چاہتے تھے، ورنہ مغل عہد میں تو مندروں کو تحفظ فراہم کیا گیا، اس سے آگے بڑھ کر دیکھا جائے تو بین المذاہب تعاون کا مقصد سیاسی کنٹرول کو برقرار رکھنا تھا جس کی ایک مثال یونینسٹ پارٹی کی بھی دی جاسکتی ہے جو 1946 تک کسی نہ کسی شکل میں پنجاب میں حکمران رہی۔
پاکستان کے قیام کے بعد یہ تصور سامنے آیا کہ اس نئے ملک کی تشکیل ہندوﺅں اور مسلمانوں کے درمیان طویل اور بنیادی اختلافات کی بناءپر عمل میں آئی۔
— تحریر انوشے ملک: انوشے نے لندن یونیورسٹی سے تاریخ میں پی ایچ ڈی میں ڈگری لی ہے اور وہ اس وقت لاہور یونیورسٹی آف منیجمنٹ سائنسز میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں۔
رہنماﺅں کی قصیدہ خوانی
مقدمہ ابن خلدون کے دیباچے میں ان سات غلطیوں کا ذکر کیا گیا ہے جو تاریخ دان اکثر کرتے ہیں، ان میں سے ایک"اعلیٰ حکام کی حمایت حاصل کرنے کی عام خواہش ہوتی ہے، اس مقصد کے لیے ان کی تعریف کی جاتی ہے اور انہیں مشہور کرنے کی کوشش کی جاتی ہے"۔
یہ غلطی یا جھوٹ پاکستان کی نصابی کتب کو 1950 کی دہائی سے اپنا شکار بنا رہا ہے اور اسے ایک سیاسی ہتھیار کے طور پر گزشتہ حکمرانوں چاہے سویلین ہو یا فوجی، کی قصیدہ خوانی کے لیے استعمال کیا جارہا ہے۔
اس کے علاوہ ایک اور بیوقوفی مختلف فریقین کو غائب کرنا ہے، یعنی ہندوستان اور کانگریس کو غیرضروری طور پر نظرانداز کیا جاتا ہے اور قوم پرستی کی سوچ کو فروغ دینے کے لیے تاریخ کا یکطرفہ تصور پیش کیا جاتا ہے۔
برصغیر کی تقسیم کے بعد سے سکولوں کے طالبعلموں کے لیے تاریخی کتب میں یہ خلاءمووجد ہے اور ان حیرت انگیز طور پر تاریخی حقائق کو موڑ تروڑ کر پیش کرنے کی منظوری وفاقی اور صوبائی ٹیکسٹ بورڈز کی جانب سے دی جاتی ہے۔
مزید یہ کہ ' دشمن' کے خلاف اپنی دشمنی کا اظہار سرکاری تاریخی کتب میں کھلم کھلا اور غیرضروری طور پر بڑھ چڑھ کر کیا جاتا ہے، بدقسمتی سے ایسا ہی سرحد کی دوسری جانب ہندوستانی اسکولوں میں بھی ہوتا ہے۔
بیشتر ریاستیں انیس ویں اور بیس ویں صدی میں تاریخ کے سرکاری ورژن کو استعمال کرتی تھیں تاکہ قوم پرستانہ اور یکساں شناخت کو قائم کیا جاسکے، پاکستان کے پہلے وزیر تعلیم فضل الرحمان نے 1948 میں ہسٹوریکل سوسائٹی آف پاکستان کو قائم کای تھا، تاکہ نئی قوم کی تاریخ کو منصفانہ اور متوازن انداز میں لکھ کر اسے مستند اور قابل اعتبار ذرائع کے طور پر استعمال کیا جاسکے۔
گزشتہ حکومتوں نے اس مقصد پر توجہ نہیں دی اور پاکستانی اسکولوں میں تاریخ پر لکھنا ٹیکسٹ بک بورڈز کا ہدف بن گیا جس میں مصنفین کے غیراخلاقی اور غیرعالمانہ کاموں کی توثیق کی جاتی جنھیں سرکاری اسکولوں میں پڑھایا جاتا ہے۔
ذاتی مفاد کے حصول کا یہ طریقہ 2004 کی اوپن ڈور پالیسی کے باوجود ختم نہیں ہوسکا، جس کے تحت نجی پبلشرز کو معیاری درسی کتب کی اشاعت کا موقع فراہم کیا گیا۔
— تحریر عصمت ریاض: عصمت تعلیمی مشیر اور ایک درسی کتاب انڈراسٹینڈنگ ہسٹری کی مصنفہ ہیں۔
تاریخی ادوار کی اکھاڑ پچھاڑ
سندھ کی بیشتر درسی کتب میں موہنجوڈارو اور وادی سندھ کی تہذیب کا تذکرہ تو موجود ہے مگر اس پر بامقصد انداز میں بحث اور اس کی ثقافتی و دیگر عناصر کا تذکرہ موجود نہیں۔
اس کی بعد کی صدیوں کے اہم ادوار اور واقعات کا ذکر بھی نکال دیا گیا ہے، مثال کے طور پر آریان تہذیب جس نے طاقتور سماجی نظام اور رزمی شاعری (مہابھارت جس میں سندھ اور خیبرپختونخوا نے اہم کردار ادا کیا)، برہمن مذہب، بدھ ازم کے ایک ہزار سال، اس کی یونیورسٹیوں اور گندھارا تہذیب جو کہ موجودہ عہد کے پاکستان میں موجود تھی، کا تذکرہ نہ ہونے کے برابر ہے۔
پاکستانی اسکولوں کا کوئی طالبعلم ہمیں نہیں بتاسکتا کہ پاکستان کا موجودہ خطہ ماضی میں سائرس اعظم اور داریوش کی حخمانیشی سلطنت اور بعد میں ساسانی سلطنت، جس کا حکمران لیجنڈری نوشیرواں تھا، کا حصہ رہ چکا ہے۔ اسی طرح بہت کم لوگ ہی اس بات سے آگاہ ہیں کہ اشوکا اعظم خیبرپختونخواہ، سندھ اور پنجاب پر بھی حکمران تھا۔
اس تاریخی ردوبدل کے پاکستانی نوجوانوں کے ذہنوں پر تباہ کن اثرات مرتب ہوئے ہیں، اور وہ خود کو متعدد تہذیبوں کا وارث کی نظر سے دیکھنے کی بجائے دنیا کو تنگ نظری اور یکطرفہ نظر سے دیکھتے ہیں، یہ وہ تضاد ہے جو انفارمیشن ٹیکنالوجی اور معلومات کے پھلاﺅ کے اس عالمی دور میں زیادہ نمایاں ہوگیا ہے، اس کے ساتھ ساتھ یہ اسلامی تعلیمات کے بعد خلاف ہے، جس کا اظہار قرآن مجید کی پہلی آیت میں کہا گیا تھا کہ تعلیم کے حصول میں کوئی رکاوٹ نہیں۔
اس کے برخلاف ہم نے کتابوں، ڈیجیٹل پلیٹ فارمز جیسے یوٹیوب اور یہاں تک کہ اخبارات پر اسلامی جمہوریہ پاکستان میں پابندی لگارکھی ہے۔
— تحریر حمیدہ کھوڑو: حمیدہ کھوڑہ ایک تاریخ دان اور سندھ کی سابق وزیر تعلیم ہیں۔
دیگر نظریہ
قائداعظم محمد علی جناح اور لیاقت علی خان مسلم لیگ کے دیگر اراکین کے ہمراہ
|
اس حوالے سے ہیرالڈ نے معروف ہندوستانی تاریخ دان اور جواہر لعل نہرو کے فیلو مشاہیر الحسن کو مدعو کیا تاکہ وہ سرحد کے دونوں اطراف کی درسی کتب میں موجود غلط حقائق کو سامنے لاسکیں۔
تاریخ کو صرف اسباق کے لیے استعمال کیا جاسکتا ہے اور یہ تاریخ دانوں کا فریضہ ہے کہ وہ دیکھیں کہ اسے کس حد تک ٹھیک طریقے سے پڑھایا جارہا ہے، برصغیر میں بہت کم ہی افراد اس مشورے پر عمل کرتے ہیں، ہندوستان اور پاکستان دونوں جگہ کی دانشورانہ فضاءنے تاریخی پیشے کو بدنظمی کا شکار کردیا ہے۔
بحث و مباحث کا حصہ بننے والے افراد کی طاقت اور اثررسوخ کی وجہ سے ایسے افراد کی تعداد بڑھی ہے جو بامقصد سوچ سے دستبردار ہوچکے ہیں، حال ہی میں انڈین کونسل فار ہسٹوریکل ریسرچ کا چیئرمین راشٹریہ سوایم سیوک سنگھ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص کو بنانا اعتدال پسند اور سیکولر تاریخ دانوں کے لیے تشویش کا باعث بنا ہے۔
خیالات میں تنوع ہندوستانی تاریخ نویسی کا خاصہ رہی ہے، اسی کا نتیجہ ہے کہ پاکستان کی تخلیق اور ایک ریاست کے طور پر آگے بڑھنے کو مختلف ادوار میں مختلف انداز میں پیش کیا گیا۔
تقسیم کے بھوت کو پس پشت رکھ کر مزید پوسٹمارٹم سے گریز کرنا چاہئے، جبکہ بائیں بازو کے تاریخ دانوں نے پاکستان کے خیال اپنانے سے کبھی انکار نہیں کیا، بلکہ وہ کانگریس قیادت کو تنقید کا نشانہ بناتے ہیں جو اس تحریک کو آگے بڑھانے میں ناکام رہی جس کا آغاز کمیونزم کی حامی طاقتوں نے کیا تھا۔
یہ بات ٹھیک ہے کہ مولانا عبدالکلام آزاد اور رام منوہر لوہیہ، خاص طور پر مولانا نے 1937 میں کانگریس مسلم اتحاد سے نجات کے نہرو کے منصوبے کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔
تارا چند کی ہندوستان میں تحریک آزادی کی تاریخ 1977 تک کافی اہمیت رکھتی تھی پھر جنتا حکومت نے سیکولر درسی کتب کو دوبارہ تحریر کرنے کا فیصلہ کیا، جبکہ اکتوبر 1999 میں بی جے پی کی اتحادی حکومت نے تاریخ کی تباہی کا سلسلہ مداخلت، درسی کتب کی دوبارہ تحریر اور نصاب کی ' فائن ٹیوننگ' کے ذریعے شروع کیا۔
تعلیم کو زعفرانی رنگ پہنانے سے متعصب، اونچی ذات اور جبر وغیرہ ایک طالبعلم کی متوازن اور باشعور سوچ متاثر ہورہی ہے، اس کے ساتھ ساتھ ہمارے لیے تاریخی حقائق کو سامنے لانا یا بامقصد تاریخی تحقیق کا دفاع کرنا مشکل ہوگیا ہے۔
پاکستان کی کہانی مختلف انداز میں بیان کی جاتی ہے، آئی ایچ قریشی اور عزیز احمد سے شروع کرتے ہین جو ہمارے پڑوسی عالم ہیں اور جن کا ماننا ہے کہ مسلم ریاست کا قیام قدرتی عمل کا نتیجہ ہے۔
انہوں نے دو قومی نظریہ کی وضاحت مکمل طور پر اسلامی اصولوں کے مطابق کی ہے، اس کے دوران وہ ہندوستانی معاشرے کی اتحاد پسند اور جامع پوزیشن کی جانب سے آنکھیں کیے رکھتے ہیں، جس کا آغاز محمد اقبال کی یادگار فقروں سے ہوتا ہے اے آب رود گنگا، وہ دن ہیں یاد تج کو؟ اترا تیرے کنارے جب کارواں ہمارا۔
اسی شاعر نے ایک امن اور خیرسگالی کے مندر" نیا شوالا" پر بھی بات کی ہے، جبکہ اقبال نے ایک اور جگہ مذہبی برداشت اور مطابقت کا سبق بھی دیا ہے۔
المیہ یہ ہے کہ ان خیالات کا اظہار ہماری درسی کتب میں بمشکل ہی ہوتا ہے، ہم سماجی اور ثقافتی ورثے کے تنوع اور شیئر کرنے کے لیے تیار نہیں، ہم اپنے طالبعلموں کو کبیر، گورو نانک، اکبر اور داراشکوہ کے اعتدال پسندانہ ترکے سے متعارف ہی نہیں کراتے، اس کے مقابلے میں ہم اسے کفرو ایمان کی جنگ قرار دیا جاتا ہے، جس میں مندروں کی تخریب اور جبری مذہب قبول کرنے جیسے واقعات کو اچھالا جاتا ہے، اسی طرح نوجوان طالبعلموں میں اسلامی یا ہندو توا نظریات کو متعارف کرایا جاتا ہے جس سے سول سوسائٹی اور ریاست کو نقصان پہنچ رہا ہے۔
سعادت حسن منٹو نے ایک زندہ حقیقت کی وضاحت کی ہے وہ یہ کہ دونوں اطراف میں رہائش افراد کے درمیان ثقافتی اور سماجی رابطوں کی طویل تاریخ ہے، جبکہ دونوں سرحدوں کی ایسی شخصیات کو مرکز بنایا گیا ہے جن کے قوموں کی تعمیر کے حوالے سے نظریات مبہم ہیں، منٹو نے کچھ کہے بغیر اس ضرورت پر زور دیا ہے کہ ریاستی سرپرستی میں بننے والی قومی تاریخ میں درستگی لانے کی ضرورت ہے۔
عائشہ جلال نے بالکل صھیح نقطہ اٹھایا ہے کہ پرانے کٹر نسل نئے تاریخی شواہد کا سیلاب سامنے آنے کے بعد پیچھے ہٹ رہے ہیں، جس سے پرانی غلطیاں نئے تضادات میں چھپ رہی ہے، یہ وقت ان کو ٹھیک کرنے کا ہے، اب وہ نظریات ٹوٹ پھوٹ کا شکار ہیں جنھوں نے آزادی کے سورج کو علیحدگی کے تکلیف دہ لمحے میں تبدیل کردیا تھا۔
ہندوستان سے جنگیں
اس جھوٹ کی وجہ قوم پرستی کے بارے میں ہمارے مسخ تصورتات ہیں، بچوں کو ہماری تاریخی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا موقع فراہم کرنے کی بجائے ہم انہیں غلط تصویر دکھاتے ہیں، اور یہی وجہ ہے کہ ہم نسل درنسل وہی غلطیاں دہرائے چلے جارہے ہیں۔
ہندوستان کے ساتھ 1965 کی جنگ کے بارے میں ایک اقتباس خیبرپختونخوا کے ٹیکسٹ بورڈ کی جانب سے 2002 میں شائع کی گئی پانچویں جماعت کی ایک کتاب سے لیا گیا ہے" پاکستانی فوج نے ہندوستان کے متعدد علاقوں کو فتح کرلیا اور پھر ہندوستان خود کو شکست کے دہانے پر دیکھ کر اقوام متحدہ کی جانب بھاگ کر جنگ بندی کی اپیلیں کرنے لگا، اس کے بعد پاکستان عالی ظرفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے ہندوستان کے فتح کردہ علاقوں سے واپس لوٹ آیا"۔
پنجاب ٹیکسٹ بورڈ نے مشرقی پاکستان کی علیحدگی کی وجوہات پر 1993 میں سیکنڈری کلاسز کے لیے یہ مضمون شامل کیا تھا" مشرقی پاکستان میں ہندو بڑی تعداد میں مقیم تھے، انہوں نے کبھی پاکستان کو دل سے تقسیم نہیں کیا، ان کی بڑی تعداد اسکولوں اور کالجوں میں پڑھانے کا کام کررہی تھی"۔
اس طرح وہ طالبعلموں میں ایک منفی تاثر تخلیق کررہے ہیں، ان کی نظر میں نوجوان نسل کے لیے تصور پاکستان کی وضاحت کی کوئی اہمیت نہیں۔
کتاب میں مزید کہا گیا ہے" ہندو اپنی آمدنیوں کا بڑا حصہ ہندوستان بھیج رہے تھے جس سے صوبے کی معیشت بڑی طرح متاثر ہوئی، کچھ سیاسی رہنماﺅں نے ذاتی مفادات کے لیے صوبائیت کی حوصلہ افزائی کی، وہ مرکزی حکومت کے خلاف اٹھ کھڑے ہوئے اور مغربی پاکستان کو دشمن اور استحصال کرنے والا قرار دینے لگے، سیاسی عزائم کے حصول کے لیے قومی اتحاد کو داﺅ پر لگا دیا گیا"۔
انٹرمیڈیٹ کے طالبعلموں کے لیے سوکس آف پاکستان کی 2000 کی کتاب میں یہ خط بھی شامل ہے" اگرچہ مسلمانوں کی جانب سے تقسیم کے موقع پر غیرمسلموں کو پاکستان چھوڑنے کے لیے ہر طرح کی مدد فراہم کی گئی، تاہم ہندوستانی عوام نے پاکستان ہجرت کرنے والے مسلمانوں کی نسل کشی کی، انہوں نے مسلم مہاجرین کو لیکر جانے والی ٹرینوں، بسوں اور ٹرکوں پر حملہ کرکے انہیں قتل کیا ور لوٹ مار کی"۔
ایم ڈی ظفر کی پاکستان اسٹیڈیز میں دی گئی کچھ مثالیں مکمل طور پر حقائق کے برخلاف ہیں، جیسے " پاکستان کا قیام اسی وقت عمل میں آگیا تھا جب عربوں نے محمد بن قاسم کی قیادت میں سندھ اور ملتان کو فتح کرلیا، عرب حکمرانوں کے زیرتحت زیریں وادی سندھ میں پاکستان قائم ہوگیا تھا۔
اسی طرح" گیارہویں صدی کے دوران غزنول سلطنت ان علاقوں پر مشتمل تھی جو آج پاکستان اور افغانستان کا حصہ ہیں، بارہویں صدی میں غزنوی حکمران افغانستان سے محروم ہوگئے اور ان کا اقتدار پاکستان تک محدود ہوگیا"۔
ایک اور جگہ ذکر ہے" تیرہویں صدی میں پاکستان پورے شمالی ہندوستان اور بنگال تک پھیل گیا، خلجی عہد حکومت کے دوران پاکستان جنوب کی جانب بڑھا اور وسطی ہندوستان اور دکن تک پھیل گیا"۔
کتاب کے مطابق" سولہویں صدی میں ہندوستان مکمل طور پر پاکستان میں جذب ہوگیا"۔
اسی طرح" شاہ ولی اللہ نے افغانستان اور پاکستان کے بادشاہ نادر شاہ درانی سے مغل ہندوستان کے مسلمانوں کی مدد کے لیے اپیل کی تاکہ انہیں مراٹھا جنگجوﺅں سے بچایا جاسکے"۔
ایک اور جگہ لکھا ہے" پاکستانی خطے میں جہاں ایک سیکھ ریاست قائم ہوگئی تھی، وہاں مسلمانوں کو مذہب کی آزادی دینے سے انکار کردیا گیا تھا"۔
کتاب میں مزید لکھا ہے"اگرچہ پاکستان کا قیام اگست 1947 میں عمل میں آیا، تاہم اس کی بنیاد انیسویں صدی کے وسط میں ہی برطانوی راج کے آغاز کے موقع پر پڑچکی تھی، اس وقت نام تو مختلف تھا مگر موجودہ عہد کا پاکستان اس وقت موجود تھا"۔
— تحریر اے ایچ نیئر: اے ایچ نیئر ریٹائرڈ پروفیسر ہیں، جنھوں نے ایس ڈی پی آئی کی ایک رپورٹ کی تیاری میں حصہ لیا، جس میں پاکستان کی درسی کتب کا جائزہ لیا گیا تھا۔
پاکستان مسلمانوں کے تشکیل دیا گیا۔
ڈان اخبار کے بارہ ستمبر 1948 کے شمارے میں محمد علی جناح کی موت کا اعلان کیا گیا
|
مذہب کو شامل کرنے خیال مسلم لیگ کے اندر 1937 کے انتخابات سے قبل سامنے نہیں آیا تھا، جس میں مسلم لیگ کو شکست اور کانگریس کو واضح فتح حاصل ہوئی تھی، یہ وہ وقت تھا جب مذہبی قوم پرستی کی لہر ابھری اور اترپردیش، بنگال اور پنجاب کے مسلمانوں کے درمیان اتحاد کا احساس پیدا ہوا تاکہ اس تصور کے تحت مسلم لیگ کے ساتھ تعاون کیا جاسکے۔
پاکستان کے قیام بنیادی طور پر اس طبقے کے تحفظ اور ترقی کے لیے عمل میں آیا جو مسلم لیگ کی تشکیل میں پیش پیش تھا، مسلم لیگ کی تشکیل کے موقع پر جو افراد موجود تھے وہ اعلیٰ طبقے سے تعلق رکھتے تھے، جنھیں یہ ڈر تھا کہ جب برطانوی سامراج ہندوستان سے چلا جائے گا اور نمائندہ حکومت کا قیام عمل میں آجائے گا تو امراءکی وفادار مسلم طاقت انتشار کا شکار ہوجائے گی، خاص طور پر کانگریس میں موجود طبقات جن میں بیشتر پرھے لگے شہری اور دیہی مڈل کلاس کے افراد پر مشتمل تھے، آگے بڑھ کر سیاسی طاقت حاصل کرلیں گے۔
بنگال کی کاشتکار تحریک کو آگے بڑھانا مکمل طور پر سیاسی مقاصد کے لیے تھا کیونکہ اس کے عزائم اور تصور جاگیردار طبقے کے عزائم کے خلاف تھے۔
یوپی کا پڑھا لکھا مڈل کلاس شہری طبقہ جو بعد میں مسلم لیگ میں شامل ہوگیا جس نے 1940 میں ہندو مسلم تقسیم کی بحث کا اعلان کیا، آزادی کے فوری بعد مسلم قوم پرستی سے اجتناب برتا گیا کیونکہ اس کے سیاسی استعمال کے مقاصد پورے ہوچکے تھے۔
ریاست کا وہ تصور جو پڑھے لکھے شہری طبقے نے 1947 میں پیش کیا تھا، اس کی بنیاد ریاستی جماعتی ویژن پر رکھی گئی تھی جس میں ہر ایک کو یکساں مذہبی و شہری حقوق حاصل ہوں گے۔
No comments:
Post a Comment