کاروبار کا نیا گُر
مسٹر پیٹر ہوانگ تائیوان کے شہری اورچین کے شہر شانتو میں
ایک کمپنی اور فیکٹری کے مالک ہیں۔ ویسے تو میں انہیں بیس سال سے جانتا
ہوں مگر گزشتہ آٹھ سال ان کے ساتھ کام کرنے کا تجربہ بھی رہا ہے۔ اپنے
ملک میں لازمی فوجی تربیت کی بناء پر کمانڈو ، کاروبار سے جڑے ہونے کی
وجہ سے خوب پڑھے لکھے، چیمبر آف کامرس کے نائب صدر اور یہاں کے سماجی
حلقوں میں سرگرم کارکن ہیں ۔ گولف میں ہول ان ون کرنے والے خوش قسمت،
محفلوں کی جان اور یار باش آدمی ہیں۔
جس طرح ہر انسان میں کئی خوبیوں کے ساتھ خامیاں بھی ہوتی ہیں
بالکل اسی طرح ان کی خامی پیسے کے پیچھے بھاگتے رہنے کے دوران اپنے بچوں
سے علیٰحدہ رہنا بھی ہے۔ ان کے بچے دیگر خاندان کے ساتھ تائیوان میں رہتے
ہیں تو وہ خود یہاں شانتو میں مقیم ہیں۔
کاروبار سے متعلقہ کہیں کوئی بات ہو رہی ہو اسے سمجھنا اور
اس پر غور کرنا ان کا شوق ہے۔ مثال کے طور ایک بار ہم شنگھائی میں ایک
تجارتی میلہ گھومنے کے دوران تازہ دم ہونے کیلئے کافی پینے ایک غیر ملکی
کافی شاپ پر چلے گئے جہاں بیروں نے غلطی سے مہمانوں پرکھانے کی ایک ڈش
گرا دی ، اس معاملے سے ہمارا کوئی تعلق نہیں تھا مگر یہ بیرے اور ان کا
منیجر اس گمبھیر معاملے کو کیسے نمٹاتے ہیں دیکھنا گویا پیٹر کا پسندیدہ
موضوع تھا اور اس چکر میں ہم وہاں سے کافی کے ساتھ کھانا وغیرہ بھی کھا
کر اُٹھے۔
ایک بار اپنی علالت کی وجہ سے اس کو کچھ دن تائیوان جا کر
رہنا پڑا، اس دوران اس نے اپنے سارے بھولے بسرے رشتہ داروں کو ملنے کی
ٹھانی۔ اپنی ایک بہن کو ملنے کیلئے دور دراز پہاڑی مقام پر گئے۔ پیٹر کی
یہ بہن ایک سیاحتی مقام سے واپس آتی پہاڑ کی ایک اترائی پر وہاں کا مشہور
موسمی پھل ناشپاتی بیچنے کا سٹال لگاتی تھی۔ صاحب اپنی بہن کو ملنے کے بعد
باتیں کرنے کیلئے بیٹھے تو دیکھا کہ اس جگہ پر ناشپاتیاں بیچنے والی وہ
اکیلی نہیں، آس پاس کئی اور بھی سٹال تھے۔ مگر کچھ تو خاص تھا کہ کسی
سٹال پر بھی اتنے گاہک نہیں تھے جتنے اس کی بہن کے سٹال پر تھے۔ رش کی
وجہ سے پیٹر کیلئے اپنی بہن سے چند باتیں کرنا بھی محال ہو رہا تھا اور
اتنے عرصے کے بعد ملنے پر اور اتنی دور آ کر کچھ باتیں کیئےبغیر لوٹ
جانا اُسے اچھا نہیں لگ رہا تھا۔ انتظار میں بیٹھے بیٹھے اس کا کاروباری
دماغ چلا تو سوچنے لگا آخر ایسی کونسی وجہ ہے جس کی بناء پر اس کے بہن
کے پاس بیسیوں گاہک ناشپاتیاں خریدنے کے ساتھ ساتھ اپنی باری کا انتظار بھی
کر رہے ہیں جبکہ دوسرے سٹال پر اکا دُکا گاہک ہی بے رغبتی سے یا جلدی سے
لیکر جانے کے چکروں میں موجود ہیں۔
ہر آنے والے گاہک کو ناشپاتی کاٹ کر کھلانا کوئی بڑی بات
نہیں تھی ، یہ سب کچھ ایک کارکن کر ہی رہی تھی مگر پیٹر کی بہن اس دوران
اپنے گاہکوں کو یہ بتا رہی تھی کہ یہاں کی ناشپاتیاں ملک بھر کی
ناشپاتیوں سے زیادہ رسیلی اور مزیدار ہیں ۔ گاہکوں سے رائے لینے کے بعد کہ
کیا انہوں نے ناشپاتیوں کا ذائقہ منفرد پایا ہے یا نہیں؟ مثبت جواب ملنے
پر وہ گاہکوں کو یہ شہ دیتی تھی کہ اگر آپ یہاں کی مشہور سوغات کھا رہے
ہیں تو کیا آپ اپنے بھائیوں اور بہنوں کو اس نعمت سے فیض یاب نہیں کرنا
چاہیں گے ؟وہ گاہکوں کو بتاتی کہ اگر وہ کہیں تو وہ ان کی طرف سے ان
ناشپاتیوں کو کوریئر سروس سے ان کے عزیزوں کو ابھی بجھوا دیتی ہے، ہر ڈبے
میں وہ ایک محبت بھرے پیغام والا کارڈ بھی ڈال دے گی جس پر لکھا ہو گا کہ
میری بہن جب میں یہ لذیذ ناشپاتیاں کھا رہا تھا تو میرا دل چاہا کہ آپ بھی
اس ذائقے سے لطف اندوز ہوں اس لیئے میں یہ تحفہ آپ کو بھجوا رہا ہوں۔ گاہک
کو بتانے کا انداز اچھوتا تھا اور گاہک اسے اپنے آرڈر کے ساتھ ساتھ اپنے
عزیزوں کے نام اور پتے لکھوا رہے تھے۔ بات یہیں تک ختم نہیں ہوتی تھی، اس
کے بعد وہ گاہکوں سے پوچھتی کہ کیا آپ لوگ اس تفریحی مقام پر ہر سال آتے
ہیں یا کبھی کبھار؟ جواب ملنے پر وہ انہیں بتاتی کہ اگر آپ مجھے اپنا پتہ
دیتے جائیں تو میں اگلے سال ناشپاتیوں کا موسم شروع ہونے پر آپ کو اس
ناشپاتیوں کے بارے میں یا د دلاؤں گی، اگر آپ چاہیں تو اگلے سال کیلئے وہ
ابھی آرڈر لے لیتی ہے ورنہ اور مجھے یقین ہے کہ آپ مجھے بھجوانے کیلئے کہیں
گے۔ گاہک دھڑا دھڑ اس کو اپنے گھروں کے پتے لکھوا کر جا رہے تھے۔
ملازموں کے ساتھ مل کر گاہکوں کا مطلوبہ آرڈر پیک کرنا پیٹر
کے شایان شان کام نہیں تھا مگر وہ ماحول کا حصہ بننے کیلئے اُٹھ کر اُن کے
ساتھ شامل ہو گیا تاکہ وہ کام کرتے کرتے موقع ملنے پر بہن سے باتیں کرتا
رہے۔ اس دوران موقع ملنے پر اس نے بہن سے پوچھا کہ یہ پھل تو موسمی ہے،
موسم کے خاتمے پر وہ کیا کرے گی؟ جو کچھ اس کی بہن نے بتایا وہ حیران کُن
تھا کہ؛ جب موسم ختم ہو گا تو اپنے سٹال پر آنے والے ہر گاہک کو شکریہ کے
خط بھیجے گی۔ اگلے سال کی فروخت اور ایڈوانس ملنے والے آرڈرز کیلئے وہ
کسانوں کو بیعانہ یا مول دیکر پھل کی پیداوار خرید لے گی۔ موقع مناسبت
اور عید تہوار پر اپنے گاہکوں سے رابطہ رکھے گی، بچوں کے ساتھ تفریح کیلئے
کسی ملک جائے گی اور زندگی کو بھر پور طریقے سے گزارے گی۔
کل مجھے فیس بُک پر ایک نوجوان نے دوستی کیلئے پیغام بھیجا،
پروفائل سے وہ سوات کا باسی اور وہاں کے مقامی کشیدہ کاری اور کڑھائی والے
کپڑوں اور چادروں کا تاجر تھا۔ سیاحتوں کی کمی کا شکار اس علاقے اور
موسموں کی تنگی تُرشی سے نبرد آزما لوگوں کیلئے مستقل کاروبار سے متعلق
سوچتے ہوئے میرے دل میں خیال آیا تھا کہ اگر پیٹر کی بہن صرف موسمی پھل
کو سال بھر کیلئے روزی کا ذریعہ بنا سکتی ہے تو فیس بُک تک رسائی رکھنے
والے اس علاقے کے ہمارے یہ نوجوان اس وسیلہ باہمی میل ملاپ اور تواصل کو
اپنے کاروبار کی ترقی کا ذریعہ کیوں نہیں بنا سکتے۔ گرمیوں میں چند دن
کیلئے جانے والے سیاح ان کپڑوں، میووں، تحفوں اور چیزوں کو جس حیرت سے
دیکھتے اور محبت سے خریدنے ہیں کیا وہ یہاں قسمت سے دوبارہ یہاں آنے کا
انتظار کریں تو تب کہیں جا کر یہ چیزیں دوبارہ خریدیں۔ چین کی مقامی
معیشت میں ریڑھ کی ہڈی کی حیثیت رکھنے والی کچھ ویب سائٹس آنلائن محض
کمپیوٹر اور موبائل ہی نہیں بیچتیں علاقائی سبزیاں تک بھی بیچتی ہیں۔ میرا
پیغام واضح ہے اور آپ کیلئے ایک وسیع موقع موجود، آئیے ایسا کوئی طریقہ
آزما کر دیکھتے ہیں۔
No comments:
Post a Comment