میں اکثر ڈاکٹر جاسم المطوع صاحب کا تذکرہ اپنے ٹویٹر حساب یا فیس بک حساب پر کرتا رہتا ہوں۔ آپ کویت کے رہنے والے ہیں، ایک مشہور ٹی وی چینل
کے سربراہ ہونے کے ساتھ ساتھ بچوں بڑوں اور خاندان بھر کیلئے چھپنے
والے کئی مجلات کےمدیر اور کئی عالمی شہرت یافتہ کتابوں کے مؤلف بھی
ہیں۔ اولاد کی تربیت، خاندانی مشاکل اور ان کے حل پر بات کرنا آپ کے
پسندیدہ موضوع ہیں۔ میں نے ایک بار ان کا ایک منفرد مضمون پڑھا تھا، فائدے
کیلئے ملخص پیش خدمت ہے۔
لکھتے ہیں؛ میرا
تعارف ایک ایسے امریکی شخص سے ہوا جس کی عمر ساٹھ سال سے زیادہ تھی۔ یہ
امریکی بیک وقت صحافی، نقاد، کاتب اور درس و تدریس کے شعبے سے تعلق رکھتا
تھا۔ امریکہ میں اپنی مدت ملازمت پوری اور پنشن لیکر ریٹائر ہو چکا تو
ذاتی معلومات انٹرنیٹ پر ڈال دیں۔ کویت کے ایک پرائیویٹ سکول نے پرنسپل کے
عہدہ کیلئے آفر کی تو فوراً یہاں چلا آیا۔ تعارف پر اس نے اپنا نام جریک
بتایا۔ پچھلے چھ ماہ سے مشرف بہ اسلام تھا، میں نے اسلام میں داخل ہونے کا
سبب پوچھا تو کہنے لگا؛ میں کویت میں جس چیز سے سب سے زیادہ متاثر ہوا وہ
یہاں کا خاندانی نظام، صلہ رحمی اور میل ملاپ تھا۔ جب ایک بیٹا ادب کے ساتھ
اپنے باپ کے سر پر بوسہ دیتا تھا تو میں یہ دیکھ کر حیران رہ جاتا تھا۔
برا الوالدین نام کی کوئی چیز اگر تھی تو اس کا حقیقی مفہوم یہاں پر
پایا جاتا تھا۔ لوگوں کا آپس میں اور خاص طور پر ہمسائیوں کے ساتھ معاملہ
اور برتاؤ دیکھ کر حیرانگی ہوتی تھی۔ بس یہی وہ عوامل تھے جس نے مجھے
اسلام کے بارے میں جاننے، پڑھنے اور پھر اسے قبول کرنے پر اُکسایا۔
میں نے جب جریک سے
اُس کی اپنی خاندانی زندگی اور بیوی بچوں کے بارے میں پوچھا تو یہ جان کر
حیران رہ گیا کہ وہ اب تک تین شادیاں کر چکا ہے۔ اُسکی پہلی بیوی یہودیہ
تھی جسے اس نے طلاق دیدی، دوسری عیسائی تھی اُس نے بھی طلاق لے لی تھی جبکہ
اُس کے سابقہ دونوں بیویوں سے کئی بچے تھے۔ حالیاً وہ ایک ایسی مسلمان
پاکستانی عورت سے شادی کیئے ہوئے ہے جو اُس کے ساتھ ہی اس سکول میں کام
کرتی ہے۔
جریک سے میری دلچسپی
دوچند ہوتی جا رہی تھی، میں نے اُس سے شادیوں کے ان منفرد تجربے کے بارے
میں سوال کیا؛ تو آپ نے ان تینوں مختلف المذاہب بیویوں میں کیا فرق پایا؟
ان تینوں بیویوں کے درمیاں کوئی واضح فرق تھا بھی یا کہ نہیں؟ یا ہر عورت
محض ایک جیسی عورت ہی ہوتی ہے والا معاملہ تھا؟ جریک نے مجھے جو جواب دیا
وہ سن کر میں حیران رہ گیا۔ کہنے لگا؛ میں نے اپنی زندگی میں حقیقی مسرت،
خوشی اور جو راحت اس مسلمان بیوی سے پائی ہے وہ پہلے کبھی بھی نہیں پائی
تھی۔
میں نے پوچھا ایسا
کونسا خاص سبب ہے جس کی بناء پر آپ اتنا بڑا دعویٰ کر رہے ہیں؟ کہنے لگا؛
میں نے آپس میں اختلاف، اختلاف کو نمٹانے کا اسلوب بلکہ میاں بیوی کے ساتھ
گفتگو تک کے معاملے میں ایک ایسا فرق پایا جیسا فرق فرق کوئی جوہری کسی
کوئلے اور ہیرے میں پاتا ہے۔ یہ ایسی خصوصیات تھیں جو میں نے سابقہ دونوں
یہودی یا عیسائی بیویوں میں کبھی نہیں پائی تھیں۔
جریک کے ساتھ گفتگو
بالکل میرے اپنے ہی شعبے سے متعلقہ تھی، اُس کی ہر بات کے ساتھ میری حیرت
دوچند ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے ایک بار پھر پوچھا؛ آپ نے ایک مسلمان بیوی
کو کس طرح ان باقیوں پر اتنی فضیلت دے ڈالی؟ کہنے لگا؛ اس مسلمان بیوی کے
ساتھ اگر میرا کبھی اختلاف ہوا بھی ہے تو ہم دونوں ایک دوسرے سے پوچھتے
ہیں کہ قران ایسے مسئلے میں کیا حکم دیتا ہے؟ یا سنت حبیب صلی اللہ علیہ
وسلم ایسے معاملے میں کیا فرمان صادر فرماتی ہے؟ پھر ہمیں جیسے ہی کوئی
ایسا حکم الٰھی اور شرعی حل ملتا ہے تو ہم فوراً اُس پر راضی ہو جاتے ہیں،
کیونکہ قران و سنت اور صحابہ رضوان اللہ علیھم کی سیرت زندگی کے ہر شعبہ
کا احاطہ کیئے ہوئے ہے۔ اللہ پاک نے ہمیں ایک ایسا شامل و کامل نظام دے
رکھا ہے جو ہمیں ہر قسم کے اختلافات سلجھانے اور حل کرنے کی راہ دکھاتا ہے
چاہے وہ اختلافات سیاسی ہوں، اقتصادی ہوں یا پھر خانگی اور عائلی ہوں۔
اسلام کی یہی خوبی مجھے سب سے زیادہ بھائی ہے۔ جہاں تک میری سابقہ بیویوں
کا میرے ساتھ اختلافات وغیرہ میں برتاؤ رہا ہے وہ کچھ یوں تھا کہ جب بھی
ہمارے درمیان میں اختلافات پیدا ہوئے ہمیں سمجھ ہی نہیں آتی تھی کہ اس
معاملے میں کس سے رجوع کریں۔ ہم میں ہر ایک کی اپنی اپنی رائے ہوتی تھی اور
ہم میں سے ہر ایک کا یہی دعویٰ ہوتا تھا کہ جو کچھ وہ کہہ رہا ہے وہی درست
اور وہی کچھ ہی حرف آخر ہے۔ نتیجۃً فریقین میں سے کوئی بھی کسی نتیجے پر
متفق نہیں ہو پاتا تھا۔
جریک کے ہر جواب سے
میری تشفی کی بجائے مزید جاننے کا تجسس بڑھتا جا رہا تھا۔ میں نے کہا آپ کی
بات ایک نئی جہت دیتی مگر بہت خوبصورت اور اچھی ہے، ہو سکتا ہے بہت سے لوگ
اس اہمیت سے واقف ہی ناں ہوں۔ آپ نے تین مختلف مذاہب سے تعلق رکھنے والی
بیویوں سے شادیاں کی ہیں اور تینوں کے سلوک، برتاؤ اور معاملات میں واضح
فرق پایا ہے۔ مجھے مہربانی کر کے اس فرق کے بارے مزید اپنے تجربات سے آگاہ
کیجیئے تاکہ ہم بھی ان تجربات سے مستفید ہو سکیں۔ کہنے لگا؛ میں نے مسلمان
عورت سے شادی کرنے کے بعد یہ فرق پایا کہ یہ شادی محض ازدواجی تعلقات کی
نہیں، ایمان اور روحانیت کے تعلق کی تھی۔ شاید یہی وہ بنیادی فرق تھا جو
میں یہودیہ یا مسیحیہ سے شادی کر کے نہیں پا سکا تھا۔
میں نے کہا جریک
صاحب، آپ کی بات ٹھیک ہے مگر میں آپ سے مزید وضاحت چاہونگا کہ یہ ایمانی یا
روحانی تعلق کیسا ہوتا ہے؟ کہنے لگا؛ میاں بیوی کی حیثیت سے ہمارے درمیان
یہ تعلق بھلے مالی مفادات اور خاندانی روابط پر مبنی ہوگا مگر ایمانی اور
روحانی تعلق ان سب پر بھاری ہے۔ ہم ایک دوسرے کی عبادات جیسے نماز، روزوں
اور تلاوت قرآن مجید میں مدد کرتے ہیں اور اسی چیز سے میری مراد روحانی
تعلق تھا جو میری سابقہ بیویوں سے نہیں تھا۔ اس کے علاوہ بھی جو چیز ہمیں
ایمانی طور پر ایک دوسرے سے باندھ کر رکھتی ہے وہ اس بات کا احساس ہے کہ
ہماری مستقل اور مشترکہ ملاقات اور رہائش تو جنت میں ہوگی۔ اور یہ ایسا
قیمتی احساس ہے جو ہمیں ایک دوسرے سے مضبوطی سے جوڑے رکھتا ہے جس کے نتیجے
میں ہماری ازدواجی زندگی اور بھی حسین بنی رہتی ہے۔
جریک کے مفصل جوابات
سے میری اب کچھ کچھ تشفی ہوتی جا رہی تھی۔ میں نے کہا جریک صاحب، ماشاء
اللہ آپ ایک خاص فہم اور نظر رکھتے ہیں اور چیزوں کو مختلف زاویئے سے
دیکھتے ہیں۔ بحیثیت مسلمان کیونکہ ہم اسی نعمت کے اندر ہی رہتے ہیں اس لئے
ہو سکتا ہے ہماری نظر ان پر نا جاتی ہو۔ آپ نئے نئے اسلام میں داخل ہوئے
ہیں اور اسلام کی خوبصورتی، معاشرتی بندھن اور سلوک و برتاؤ سے متعلق آپ کے
مشاہدات اور تجارب بھی نئے ہیں، اس لیئے کیا آپ اپنی باتوں میں مزید کچھ
اضافہ کرنا چاہیں گے جو دوسروں کیلئے مفید اور معلوماتی ہو؟ جریک نے کہا:
جی میں آخری بات جو کہنا چاہوں گا وہ یہ ہے کہ ازدواجی زندگی میں طرفین کے
حقوق اور فرائض واضح ہیں۔ ان پر عمل کرنے سے فریقین محفوظ اور مطمئن زندگی
گزار سکتے ہیں۔ خاص طور پر مجھے ان حقوق و فرائض کی وجہ سے جسقدر تحفظ کا
احساس ہوتا ہے وہ میں بیان نہیں کر سکتا۔ میرا تحفظ اور عدم تحفظ کا شعور
میری سابقہ یہودی اور مسیحی بیویوں سے پڑے واسطے اور تجربات پر مبنی ہے۔
میں نے جریک سے کہا؛
بلا شبہ آپ کا تجربہ انوکھا، اچھوتا اور اپنی ذات میں منفرد و یکتا ہے۔
میں چاہتا ہوں کہ آپ کے وہ تمام تجربات جو آپ نے بیان کیئے ہیں ان کو ہر
شخص سنے تاکہ وہ اسلام کے مضبوط معاشرتی نظام کی قیمت کو جان سکے۔ جس طرح
دانا کہتے ہیں کہ صحت سر پر رکھا ہوا ایسا تاج ہے جسے صرف مریض ہی دیکھ
سکتے ہیں، بالکل اسی طرح لگتا ہے کہ ہم مسلمان بھی ایسی نعمتوں اور برکتوں
میں گھرے ہوئے تو ضرور ہیں مگر یہ نظریں ہماری اپنی ہی آنکھوں اوجھل ہیں
جن کو آپ جیسوں نے آ کر دریافت کیا ہے۔ جریک میری بات پر ہنس دیا۔
No comments:
Post a Comment